تاریخ اسلامغزوات

غزوۃ (جنگ) بدر (۱۷رمضان المبارک ۲ ہجری)

Ghazwah ( Battle of Badr )

ہجرت کے دوسرے سال غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا اس غزوہ کو غزوہ بدر کبری اور غزوہ بدر عظمی بھی کہتے ہیں بدر ایک بستی کا نام ہے جو بدر بن مخلد بن نضر بن کنانہ سے منسوب و مشہور ہے اس نے اس جگہ پڑاؤ کیا تھا یا یہ بستی بدر بن حارث سے منسوب ہے جس نے یہاں کنواں کھودا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ وہاں ایک بوڑھا شخص مدتوں سے رہتا تھا جس کا نام بدر تھا۔ اس بنا پر اس بستی کو اسی کے نام سے منسوب کر دیا۔ یا اس کا نام اس بناء پر ہے کہ اس کا دائرہ وسیع تھا اور اس کا پانی اتنا صاف وشفاف تھا کہ اس میں بدر کامل نظر آتا تھا۔ حضور صلی الله علیہ والہ وسلم  کے تمام غزوات میں یہ بہت عظیم غزوہ تھا کیوں کہ اس کے ذریعہ دین کی عزت و شوکت روشن ہوئی اور اسلام کا ناموس تاباں ہوا، اس دن کو“ یوم الفرقان” سے تعبیر کیا گیا ہے کیوں کہ اس سے حق و باطل کے درمیان فرق و امتیاز رونما ہوا تھا۔

فرمایا ۔ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ مطلب یہ کہ مسلمان اور کافر اس دن جمع ہوئے اور اس دن حق تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرمایا اور کفر کی بنیادوں شکست و پامال کر کے ذلیل خوار بنایا۔ حالانکہ مسلمانوں کی تعداد کم اور دشمنان دین کی تعداد زیاد تھی اور کفار جنگ کے پورے سازوسامان سے لیس ہو کر اتراتے اور تکبر کرتے آئے تھے مگر حق تعالیٰ نے اپنے رسول صلی الله علیہ والہ وسلم کو عزت دی اور اپنے دین کو مضبوط وقوی فرمایا اور اس کے جاہ و جلال کے چہرے کو منور و روشن بنایا اور شیاطین کو ذلیل و خوار کر کے ان کو روسیاہ کیا۔

شروع رمضان میں رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلم کو یہ خبر ملی کہ ابوسفیان قریش کے قافلہ تجارت کو شام سے مکہ واپس لا رہا ہے جو مال و اسباب سے بھرا ہوا ہے۔
آپ نے مسلمانوں کو جمع کر کے اس کی خبر دی اور فرمایا یہ قریش کا کاروان تجارت ہے جو مال و اسباب سے بھرا ہوا ہے تم اس کی طرف خروج کرو عجب نہیں کہ حق جل وعلا تم کو وہ قافلہ غنیمت میں عطا فرمائے۔

چونکہ جنگ و جدال اور قتل و قتال کا وہم و گمان بھی نہ تھا اس لئے بلاکسی جنگی تیاری اور اہتمام کے نکل کھڑے ہوئے ابوسفیان کو یہ اندیشہ لگا ہوا تھا اس لئے جب ابوسفیان حجاز کے قریب پہنچا تو ہر راہ گیر اور مسافر سے آپ کے حالات اور خبریں دریافت کرتا تا آنکہ بعض مسافروں سے اس کو یہ خبر ملی کہ محمد نے اپنے اصحاب کو تیرے قافلے کی طرف خروج کا حکم دیا ہے۔ ابوسفیان نے اسی وقت ضمضم غفاری کو اجرت دے کر مکہ روانہ کیا اور کہلا بھیجا کہ قریش کو اطلاع کر دے کہ جس قدر جلد ممکن ہو اپنے قافلہ کی خبر لیں اور اپنے سرمایہ کو بچانے کی کوشش کریں۔ محمد اپنے اصحاب کو لے کر اس قافلہ سے تعارض کے لئے روانہ ہوئے ہیں۔

کعب بن مالک فرماتے ہیں ۔
“ میں کسی غزوہ میں پیچھے نہیں رہا جس میں رسول صلی الله علیہ والہ وسلم تشریف لے گئے ہوں، مگر غزوہ تبوک کے علاوہ غزوہ بدر میں بھی پیچھے رہ گیا تھا لیکن غزوہ بدر سے تخلف کرنے والوں پر کوئی عتاب نہیں ہوا اس لئے کہ رسول صلی الله علیہ والہ وسلم صرف قافلہ قریش کے ارادہ سے نکلے تھے حسب الاتفاق بلا کسی قصد کے الله نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں سے بھڑا دیا ”
۱۲ رمضان المبارک کو رسول صلی الله علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تین سو تیرہ یا چودہ آدمی آپ کے ہمراہ تھے۔ بے سرو سامانی کا یہ عالم تھا کہ اتنی جماعت میں صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے ایک گھوڑا حضرت زبیر بن عوام کا اور ایک حضرت مقداد کا تھا اور ایک ایک اونٹ دو دو اور تین تین آدمیوں میں تھا۔ عبدالله بن مسعود فرماتے ہیں کہ بدر میں جاتے وقت ایک اونٹ تین تین آدمیوں میں مشترک تھا۔ ابو لبابہ اور علی رسول صلی الله علیہ والہ وسلم کے شریک تھے ۔ جب رسول صلی الله علیہ والہ وسلم کے پیادہ چلنے کی نوبت آتی ابولبابہ اور علی عرض کرتے یا رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلم آپ سوار ہو جائیں ہم آپ کے بدلہ میں پیادہ پا چل لیں گے، آپ  نے ارشاد فرمایا کہ تم چلنے میں مجھ سے زیادہ قوی نہیں اور تم سے زیادہ میں خدا کے اجر سے بے نیاز نہیں۔

بیرابی عنبہ پر پہنچ کر جو مدینہ سے ایک میل کے فاصلہ پر ہے تمام جماعت کا معائنہ فرمایا۔ جو کم عمر تھے ان کو واپس فرما دیا روحاء میں پہنچ کر ابولبابہ بن عبد المنذر کو مدینہ کا حاکم مقرر فرما کر واپس کیا۔

اس لشکر میں تین علم تھے ایک حضرت علی کرم الله وجہہ کے ہاتھ میں اور دوسرا مصعب بن عمیر کے ہاتھ میں اور تیسرا کسی انصاری کے ہاتھ میں تھا۔ جب مقام صفراء کے قریب پہنچے تو اپنے دو ساتھیوں بسبس بن عمرد اور عدی بن ابی کو قافلہ ابوسفیان کے تجسس کے لئے آگے روانہ کیا اور ادھر ضمضم غفاری ابوسفیان کا پیام لے کر مکہ کے لئے روانہ ہوگیا۔ مکہ پہنچ کر ضمضم نے اپنے اونٹ کے ناک، کان کاٹ دئیے ۔ کجاوہ الٹ دیا تھا اور اپنی قمیص پھاڑ دی تھی ۔ اس ہیت کذائی میں وہ اپنے اونٹ پر سوار یوں یوں پکار کر کہہ رہا تھا۔

“ اے گروہ قریش! قافلہ تجارت ! قافلہ تجارت ! تمہارا مال ابوسفیان کے ساتھ ہے۔ محمد اور اس کے اصحاب اس کے سد راہ ہو گئے ہیں۔ میں خیال نہیں کرتا کہ تم اسے بچالو گے۔ فریاد! فریاد!  ” اس خبر کو سن کر قریش کہنے لگے کہ کیا محمد اور اس کے اصحاب گمان کرتے ہیں کہ یہ قافلہ بھی عمرو بن حضرمی کی مانند ہو گا؟ ہر گز نہیں۔ الله کی قسم ! انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ایسا نہیں ۔ غرض قریش جلدی سے نکلے۔ نیز اس خبر کے پہنچنے سے تمام مکہ میں ہل چل پڑگئی، اس لئے کہ قریش میں کوئی مرد اور عورت ایسا نہ رہا تھا کہ جس نے اپنی پوری پونجی اور سرمایہ اس میں شریک نہ کر دیا ہو، اس لئے اس خبر کے سنتے ہی تمام مکہ میں جوش پھیل گیا اور ایک ہزار آدمی پورے سامان کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے، ابو جہل سردار لشکر تھا۔

قریش نہایت کروفر اور سامان عیش و طرب کے ساتھ گانے بجانے والی عورتوں، طبلوں اور طبلچیوں کو ساتھ لے کر اکڑتے ہوئے اور اتراتے ہوئے روانہ ہوئے ۔
الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ :

“ اے مسلمانو! تم ان کافروں کی طرح مت ہو جانا جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے، اپنی قوت اور شوکت کو دکھلاتے ہوئے نکلے ہیں ”

تقریباً تمام سرداران قریش شریک لشکر ہوئے صرف ابولہب کسی وجہ سے نہ جا سکا اور اپنے بجائے ابو جہل کے بھائی عاص بن ہشام کو روانہ کیا۔ عاص بن ہشام کے ذمہ ابولہب کے چار ہزار درہم قرض تھے اور مفلس ہو جانے کی وجہ سے ادا کرنے کی استطاعت نہ رہی تھی، اس لئے قرض کے دباؤ میں ابولہب کے عوض جنگ میں جانا قبول کیا اور اسی طرح امیہ بن خلف ناخلف نے بھی اول اول بدر میں جانے سے انکار کیا لیکن ابو جہل کے جبر اور اصرار سے ساتھ ہو لیا۔

امیہ کے انکار کا سبب یہ تھا کہ سعد بن معاذ انصاری زمانہ جاہلیت سے امیہ کے دوست تھے۔ امیہ جب بغرض تجارت شام جاتا تو راستہ میں مدینہ میں سعد بن معاذ کے پاس اترتا اور سعد بن معاذ جب مکہ جاتے تو امیہ کے پاس اتر تے، آنحضرت کے ہجرت مدینہ کے بعد ایک مرتبہ سعد بن معاذ عمرہ کرنے کے لئے مکہ آئے اور حسب دستور امیہ کے پاس ٹھہرے اور امیہ سے یہ کہا کہ طواف کرنے کے لئے مجھے ایسے وقت لے چلو جب حرم لوگوں سے خالی ہو ۔ امیہ دو پہر کے وقت سعد بن معاذ کو لے کر نکلا طواف کر رہے تھے کہ ابو جہل سامنے سے آگیا اور یہ کہنے لگا اے ابو صفوان (یہ امیہ کی کنیت تھی یہ تمہارے ساتھ کون شخص ہے امیہ نے کہا سعد ہے ابو جہل نے کہا میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ شخص اطمینان سے طواف کر رہا ہے۔ تم ایسے بے دینوں کو ٹھکانہ دیتے ہو اور ان کی اعانت اور امداد کرتے ہو۔
اے سعد! خدا کی قسم اگر ابو صفوان یعنی امیہ تمہارے ساتھ نہ ہوتا تو تم یہاں سے صحیح و سالم واپس نہیں جا سکتے تھے سعد نے بلند آواز سے کہا اگر تو مجھے طواف سے روکے گا تو خدا کی قسم میں مدینہ سے تیر ا شام کا راستہ بند کر دوں گا۔ امیہ نے سعد سے کہا تم ابوالحکم ( یعنی ابو جہل) پر اپنی آواز نہ بلند کرو، یہ اس وادی کا سردار ہے، سعد نے ترش روئی سے کہا کہ اے امیہ ! بس رہنے دے خدا کی قسم میں نے رسول الله سے سنا ہے کہ ابو جہل حضور پر نور کے اصحاب اور احباب کے ہاتھ سے قتل ہوگا۔ امیہ نے کہا کہ کیا میں مکہ میں مارا جاؤں گا، سعد نے کہا یہ مجھے معلوم نہیں کہ تو کہاں اور کس جگہ مارا جائے گا، یہ سن کر امیہ گھبرا گیا اور بہت ڈر گیا اور جا کر اپنی بیوی ام صفوان سے اس کا تذکرہ کیا اور ایک روایت میں ہے کہ امیہ نے یہ کہا والله ما یکذب محمد فکادان يحدث، خدا کی قسم محمد کبھی غلط نہیں کہتے اور قریب تھا کہ خوف و ہراس کی وجہ سے امیہ کا پیشاب اور پاخانہ خطا ہو جائے ۔ امیہ پر اس درجہ خوف و ہراس غالب ہوا کہ یہ ارادہ کر لیا کہ کبھی مکہ سے باہر نہ نکلوں گا۔
چنانچہ جب ابو جہل نے لوگوں سے بدر کی طرف نکلنے کو کہا تو امیہ کو مکہ سے نکلنا بہت گراں تھا، اس کو اپنی جان کا ڈر تھا، ابو جہل امیہ کے پاس آیا اور چلنے کے لئے اصرار کیا، ابو جہل نے جب یہ دیکھا کہ امیہ چلنے پر تیار نہیں تو یہ کہا کہ آپ سردار ہیں، اگر آپ نہیں نکلیں گے تو آپ کی دیکھا دیکھی اور لوگ بھی نہیں نکلیں گے، عرض ابو جہل امیہ کو چمٹارہا اور برابر اصرار کرتا رہا، بالآخر یہ کہا کہ اے ابو صفوان ! تیرے لئے نہایت عمدہ اور تیز روگھوڑا خریدوں گا تاکہ جہاں خطرہ محسوس کرو فوراً اس پر بیٹھ کر واپس آجاؤ ، امیہ جانے کے لئے تیار ہو گیا اور گھر میں جا کر اپنی بیوی سے کہا کہ میرے سفر کا سامان تیار کر دو۔ بیوی نے کہا کہ اے ابو صفوان ! تم کو اپنے یثربی بھائی کا قول یاد نہیں رہا، امیہ نے کہا کہ میرا ارادہ تھوڑی دور تک جانے کا ہے پھر واپس آجاؤں گا، پس امیہ اسی ارادہ سے روانہ ہوا اور جس منزل میں اترتا اپنا اونٹ ساتھ باندھتا مگر قضاء وقدر نے بھاگنے کا موقع نہیں دیا، بدر پہنچا اور میدان قتال میں صحابہ کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ غرض یہ کہ امیہ کو اپنے قتل کا یقین تھا۔ ابو جہل کی زبردستی سے ساتھ ہولیا، ابو جہل خود بھی تباہ ہوا اور دوسروں کو بھی تباہ کیا۔

روحاء سے چل کر جب آپ صلی الله علیہ والہ وسلم مقام صفراء پر پہنچے تو بسبس اور عدی نے آکر آپ صلی الله علیہ والہ وسلم کو قریش کی روانگی کی اطلاع دی۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ والہ وسلم  نے مہاجرین اور انصار کو مشورہ کے لئے جمع فرمایا اور قریش کی اس شان سے روانگی کی خبر دی ۔ حضرت ابو بکر سنتے ہی فوراً کھڑے ہو گئے اور نہایت خوبصورتی کے ساتھ اظہار جان نثاری فرمایا اور بسر و چشم آپ کے اشارے کو قبول کیا اور دل و جان سے اطاعت کے لئے کمر بستہ ہو گئے۔ اس کے بعد عمر کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی نہایت خوبصورتی کے ساتھ اظہار جان نثاری فرمایا۔

حضرت مقداد بن اسود مالی لین نے بہت ہی بہترین تقریر کی جس کا مفہوم یہ ہے:

“ یا رسول الله! جس چیز کا الله نے آپ کو حکم دیا ہے اس کو انجام دیجیے، ہم سب آپ کے ساتھ ہیں، خدا کی قسم ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ ہر گز نہ کہیں گے کہ اے موسیٰ! تم اور تمہارا رب جا کر لڑ لو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں، ہم بنی اسرائیل کے خلاف یہ کہیں گے کہ آپ سے آپ کا پروردگار جہاد و قتال کرے ہم بھی آپ کے ساتھ جہاد و قتال کریں گے  ”

محمد ابن اسحاق کی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مقداد نے یہ تقریر مقام صفراء میں فرمائی اور صحیح بخاری اور نسائی کی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے دن یہ تقریر کی لیکن دونوں روایتوں میں کوئی منافات نہیں ۔ اول حضرت مقداد نے یہ تقریر صفراء میں آپ کے جواب میں کی اور بعد ازاں مختلف مقامات پر لذت حاصل کرنے کے لئے ان جان نثارانہ اور مخلصانہ کلمات کو بار بار دہراتے رہے۔ والله سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

حضرت عبد الله بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت دیکھا کہ رسول الله کا چہرہ انور فرط مسرت سے چمک اٹھا۔ ابن اسحاق کی روایت کی میں ہے کہ نبی کریم  نے مقداد کے لئے دعائے خیر فرمائی۔

ابو ایوب انصاری فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ میں تھے کہ رسول الله نے ہم کو قافلہ ابی سفیان کی خبر دی اور فرمایا کہ اگر تم اس کی طرف خروج کرو تو عجب نہیں کہ الله تعالیٰ تم کو غنیمت عطا فرمائے ۔ ہم نے عرض کیا، بہتر ہے اور روانہ ہو گئے جب ایک دو دن کا راستہ طے کر چکے تب آپ نے ہم کو مکہ سے قریش کے روانہ ہونے کی خبر دی اور جہاد و قتال کے لئے تیار ہو جانے کا ارشاد فرمایا۔ بعض لوگوں نے کچھ تامل کیا ( کیونکہ گھر سے اس ارادہ سے نہ چلے تھے ) حضرت مقداد کھڑے ہوئے اور اظہارِ جان نثاری فرمایا۔ کاش ہم سب ایسا ہی کہتے جیسا مقداد نے کہا۔ یعنی کاش ابتداء ہم سب ایسا ہی کہتے اس لئے کہ بعد میں پھر سب نے یہی کیا، دلوں میں سب کے وہی تھا جو حضرت مقداد فرما رہے تھے۔ رسول الله مع اپنے اصحاب کے بدر پہنچ گئے مگر قریش نے پہلے پہنچ کر پانی کے چشمہ پر قبضہ کر لیا اور مناسب موقعوں کو اپنے لئے چھانٹ لیا۔ بخلاف مسلمانوں کے کہ ان کو نہ پانی ملا اور نہ جگہ مناسب ملی ۔ رتیلا میدان تھا جہاں چلنا ہی دشوار تھا۔ ریت میں پیر دھنس ھنس جاتے تھے۔ حق جل وعلا نے باران رحمت نازل فرمائی جس سے تمام ریت جم گئی اور پانی جمع کرنے کے لئے مسلمانوں نے چھوٹے چھوٹے حوض بنائے تا کہ پانی وضو اور غسل کے کام آسکے۔

سورہ انفال میں حق تعالیٰ شانہ نے اس احسان کو ذکر فرمایا ہے۔

“ اور الله تعالیٰ تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا تا کہ تم کو پاک کر دے اور تم سے شیطان کی گندگی دور کر دے اور تاکہ تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور تمہارے قدموں کو جمادے”

یہ پانی اگرچہ مسلمانوں نے اپنی ضرورت کے لئے جمع کر رکھا تھا مگر نبی اکرم  نے اپنے دشمنوں اور خون کے پیاسوں کو اس سے پینے کی اجازت دے دی۔

جب شام ہوئی تو رسول الله نے حضرت علی زبیر بن عوام سعد بن ابی وقاص اور چند صحابہ کو قریش کی خبر لینے کے لئے روانہ فرمایا۔ اتفاق سے ان کے دو غلام ہاتھ آگئے، ان کو پکڑ لائے اور دریافت کرنا شروع کیا۔ رسول الله نماز پڑھ رہے تھے۔ ان غلاموں نے کہا ہم قریش کے سقہ میں پانی لانے کے لئے نکلے ہیں۔ ان لوگوں کو ان کے کہنے کا کچھ یقین نہ آیا اور یہ سمجھ کر ان کو کچھ مارا کہ شاید مار پیٹ کے خوف سے ابوسفیان کا کچھ حال بتلائیں۔ جب ان پر کچھ مار پڑی تو کہنے لگے کہ ہم ابوسفیان کے آدمی ہیں۔ یہ سن کر ان لوگوں نے مارنا چھوڑ دیا۔

رسول الله جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ جب ان غلاموں نے سچ بولا تو تم نے ان کو مارا اور جب جھوٹ کہا تو چھوڑ دیا۔ خدا کی قسم یہ قریش کے آدمی ہیں ( یعنی ابوسفیان کے ہمراہیوں میں سے نہیں ) آپ نے فرمایا کتنے لوگ ہیں۔ جواب دیا کہ بہت ہیں ۔ آپ نے فرمایا ان کی تعداد کتنی ہے ۔ غلاموں نے کہا ہم کو ان کی شمار اور تعداد معلوم نہیں۔ آپ نے فرمایا روزانہ کھانے کے لئے کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں ۔ جواب دیا کہ ایک دن نو اور ایک دن دس ۔ آپ نے فرمایا ہزار اور نو سو کے درمیان ہیں ۔

بعد ازاں آپ  نے دریافت کیا کہ سردارانِ قریش میں سے کون کون ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عتبہ اور شیبہ پسران ربیعہ، ابو البختری بن ہشام، حکیم بن حزام، نوفل بن خویلد، حارث بن عامر، طعیمہ بن عدی، نضر بن الحارث، زمعہ بن اسود، ابو جہل بن ہشام، امیہ بن خلف، نبیہ اور منبہ پسران حجاج ،سہیل بن عمرو اور عمرو بن عبدود، یہ سن کر آپ اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ فرمایا کہ مکہ نے آج اپنے تمام جگر گوشوں کو تمہاری طرف پھینک دیا ہے ۔ الغرض اس طرح آپ نے قریش کا حال معلوم کیا۔

جب صبح ہوئی تو آنحضرت صلی الله علیہ والہ وسلم  نے لڑائی کی تیاری کی اور حضرت سعد بن معاذ کی رائے سے آپ کے قیام کے لئے ٹیلہ پر ایک چھپر بنایا گیا۔ یہ چھپر ایک ایسے بلند ٹیلہ پر بنایا گیا جس پر کھڑے ہو کر تمام میدان کارزار نظر آتا تھا۔

حضرت انس حضرت عمر سے راوی ہیں کہ جس شب کی صبح کو میدان کارزار گرم ہونے والا تھا اس شب میں نبی کریم ہم کو میدان کارزار کی طرف لے چلے تاکہ اہل مکہ کی قتل گاہیں ہم کو آنکھوں سے دکھلا دیں، چنانچہ آپ اپنے دست مبارک سے اشارہ فرماتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے ۔ ہذا مصرع فلال غدا انشاء الله یہ ہے فلاں کی قتل گاہ صبح کو انشاء الله اور مقام قتل پر ہاتھ رکھ کر نام بنام اسی طرح صحابہ کو بتلاتے رہے۔ قسم ہے اس خدا کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا کسی ایک نے بھی اس جگہ سے سر موتجاوز نہ کیا جہاں آپ نے اپنے دست مبارک سے اس کے قتل کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ بعد ازاں آپ اور آپ کے یار غار رفیق جان نثار صدیق المهاجرین ابو بکر صدیق اس عریش ( چھپر ) میں داخل ہوئے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی ۔ صدیق اور سعد بن معاذ چھپر کے دروازے پر تلوار لے کر کھڑے ہو گئے۔

حضرت علی فرماتے ہیں بدر کی شب میں کوئی شخص ہم میں سے ایسا نہ تھا جو سو نہ رہا ہو سوائے آپ کی ذات بابرکات علیہ کے کہ تمام شب نماز اور دعا اور گریہ وزاری میں گزاری اور اسی طرح صبح کر دی ۔
طلوع فجر ہوتے ہی آپ صلی الله علیہ والہ وسلم  نے یہ آواز دی ۔ اے الله کے بندو نماز کا وقت آ گیا۔
آواز کا سنا تھا کہ سب جمع ہو گئے ۔ آپ نے ایک درخت کی جڑ میں کھڑے ہو کر سب کو نماز پڑھائی اور نماز سے فارغ ہو کر الله کی راہ میں جانبازی اور سر فروشی کی ترغیب دی۔

بعد ازاں آپ  نے اصحاب کی صفوں کو سیدھا کیا۔ ادھر کفار کی صفیں تیار تھیں۔ ماہ رمضان المبارک کی سترہ تاریخ ہے اور جمعہ کا روز ہے کہ ایک طرف سے حق کی جماعت اور دوسری طرف سے باطل کی جماعت میدان فرقان کی طرف بڑھی۔

رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلم  نے جب قریش کی عظیم الشان جماعت کو پورے سازو سامان کے ساتھ میدان کارزار کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو بارگاہ ایزدی میں یہ عرض کیا۔
اے الله یہ قریش کا گروہ ہے جو تکبر اور غرور کے ساتھ مقابلہ کے لئےآ یا ہے۔ تیری مخالفت کرتا ہے اور تیرے بھیجے ہوئے پیغمبر کو جھٹلاتا ہے۔ اے الله اپنی فتح ونصرت نازل فرما جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا اور اے الله ان کو ہلاک کر۔

بعد ازاں آپ نے لشکر اسلام کو مرتب فرمایا۔ ترتیب اور صف آرائی کے وقت دستِ مبارک میں ایک تیر تھا۔ صف میں سے سواد بن غریہ ذرا آگے کو نکلے ہوئے تھے۔ آپ نے بطور تلطف سواد بن غزیہ کے پیٹ پر تیر کا ایک بلکا سا کچوکہ دے کر فرمایا استویا سواد اےسواد سیدھا ہو جا سواد نے عرض کیا۔

"یا رسول الله آپ نے مجھ کو درد مند کیا اور تحقیق الله نے آپ کو حق اور عدل کے ساتھ بھیجا ہے۔ میرا بدلہ دے دیجیے۔”

آپ  نے شکم مبارک سے پیراہن شریف کو اٹھا کر سواد سے فرمایا اپنا بدلہ لے لو۔ سواد نے شکم مبارک کو گلے لگالیا اور بوسہ دیا اور عرض کیا یارسول الله شاید یہ آخری ملاقات ہو۔ آپ مسرور ہوئے اور سواد بن غز یہ کے لئے دعائے خیر فرمائی۔ رسول الله لشکر اسلام کو مرتب اور اس کی صفوف کو صفوف ملائکہ کی من عالم طرح درست اور ہموار فرما کر عریش میں تشریف لے گئے۔ صرف ابو بکر صدیق آپ کے ہمراہ عریش میں داخل ہوئے اور سعد بن معاذ تلوار لے کر عریش کے دروازہ پر کھڑے ہو گئے۔
قریش جب مطمئن ہوئے تو آغاز جنگ سے پہلے عمیر بن وہب جمحی کو مسلمانوں کی جماعت کا اندازہ لینے کے لئے بھیجا، عمیر بن وہب گھوڑے پر سوار ہو کر مسلمانوں کے ارد گرد پھر کر واپس آئے اور یہ کہا کہ کم و بیش تین سو آدمی ہیں لیکن مجھ کو ذرا مہلت دو کہ یہ دیکھ آؤں کہ مسلمانوں کی مدد کے لئے اور جماعت تو کہیں کمین گاہ میں چھپی ہوئی نہیں، چنانچہ عمیر گھوڑے پر سوار ہو کر دور دور ایک چکر لگا کر واپس آئے اور یہ کہا کہ کوئی کمین اور مدد نہیں لیکن اے گروہ قریش! میں یہ دیکھتا ہوں کہ یہ مدینہ کے اونٹ موت احمر (قتل) کو اپنے اوپر لادے ہوئے ہیں ۔ اس قوم کا سوائے ان کی تلواروں کے کوئی پناہ اور سہارا نہیں۔ خدا کی قسم میں یہ دیکھتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے ہر ایک جب تک اپنے مقابل کو نہ مارلے گا اس وقت تک ہر گز نہ مارا جائے گا۔ پس اگر ہمارے آدمی بھی انہیں کے برابر مارے گئے تو پھر زندگی کا لطف ہی کیا رہا۔ سوچ کر کوئی رائے قائم کرلو ۔
حکیم بن حزام نے کہا بالکل درست ہے اور اٹھ کر عتبہ کے پاس گیا اور کہا اے ابو الولید! آپ قریش کے سردار اور بڑے ہیں۔ کیا آپ کو یہ پسند نہیں کہ ہمیشہ خیر اور بھلائی کے ساتھ آپ کا ذکر ہوتا رہے۔ عتبہ نے کہا کیا ہے۔ حکیم نے کہا کہ لوگوں کو لوٹالے چلو اور عمرو بن حضرمی کا خون بہا اپنے ذمہ لے لو۔ عتبہ نے کہا میں عمر و بن حضرمی کا خون بہا اور دیت کا ذمہ دار ہوں لیکن ابو جہل سے بھی مشورہ کرلو اور کھڑے ہو کر یہ خطبہ دیا۔
اے گروہ قریش! والله تم کو محمد اور ان کے اصحاب سے جنگ کر کے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ یہ سب تمہارے قرابت دار ہیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اپنے باپ اور بھائی بنی الاعمام اور بنی الاخوان کے قاتلوں کو دیکھتے رہو گے۔ محمد اور عرب کو چھوڑ دو ۔ اگر عرب نے محمد کو ختم کر دیا تو تمہاری مراد پوری ہوئی اور اگر الله نے ان کو غلبہ دیا تو وہ بھی تمہارے لئے باعث عزت وشرف ہوگا کیونکہ وہ تمہاری ہی قوم کے ہیں (ان کا غلبہ تمہارا غلبہ ہے) دیکھو میری نصیحت کو ردمت کرو اور مجھے کو سفیہ اور نادان نہ بناؤ۔
حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ میں ابو جہل کے پاس آیا، ابو جہل اس وقت زرہ پہن کر ہتھیار سجارہا تھا۔ میں نے کہا عتبہ نے مجھ کو یہ پیام دے کر بھیجا ہے۔

ابو جہل سنتے ہی غصہ سے بھڑک اٹھا اور یہ کہا کہ عقبہ اس لئے بھی لڑائی  سے جان چراتا ہے کہ اس کا بیٹا ابوحذیفہ مسلمانوں کے ساتھ ہے اس پر کوئی آنچ نہ آئے۔ خدا کی قسم ہم ہرگز واپس نہ جائیں گے جب تک الله ہمارے اور محمد کے مابین فیصلہ نہ کر دے اور عمرو بن الحضرمی کے بھائی عامر بن الخصر می کو بلا کر یہ کہا کہ یہ تیرا حلیف عتبہ لوگوں کو لوٹا کر لے چانا چاہتا ہے اور تیرے بھائی کا خون تیری آنکھوں کے سامنے ہے۔ عامر نے سنتے ہی واعمراہ و اعمراہ ہائے عمرو ہائے عمرو کا نعرہ لگانا شروع کیا جس سے تمام فوج میں جوش پھیل گیا اور سب لڑائی کے لئے تیار ہو گئے۔
ابو جہل کی طعن آمیز گفتگو کا یہ اثر ہوا کہ عتبہ ہتھیار سجا کر جنگ کے لئے تیار ہو گیا اور گروہ مشرکین میں سب سے پہلے عتبہ بن ربیعہ ہی اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید کو لے کر میدان میں آیا اور للکار کر اپنا مبارز اور مقابل طلب کیا۔
لشکر اسلام میں سے تین شخص مقابلہ کے لئے نکلے۔ عوف اور معوذ پسران، حارث اور عبدالله بن رواحہ، عتبہ نے پوچھا تم کون ہو۔ ان لوگوں نے کہا یعنی ہم گروہ انصار سے ہیں۔ عتبہ نے کہا ہم کو تم سے مطلب نہیں ہم تو اپنی قوم سے لڑنا چاہتے ہیں ۔ ایک اور شخص نے للکار کر یہ آواز دی اے محمد! ہماری قوم میں سےہمارے جوڑ کے ہم سے لڑنے کو بھیج۔

رسول الله  نے دین نے انصار کو حکم دیا کہ صف قتال کی طرف واپس آجائیں اور حضرت علی اور حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن الحارث بینی ایم کو مقابلہ کے لئے نکلنے کا ارشاد فرمایا۔ حسب الارشاد یہ تینوں مقابلہ کے لئے نکلے۔ چہروں پر چونکہ نقاب تھے اس لئے عتبہ نے دریافت کیا تم کون ہو۔ عبیدہ نے کہا میں عبیدہ ہوں۔ حمزہ نے کہا میں حمزہ ہوں علی نے کہا میں علی ہوں۔ عتبہ نے کہا ہاں تم ہماری جوڑ اور برابر کے ہو اور محترم ہو۔
اس کے بعد جنگ شروع ہو گئی عبیدہ عتبہ کے مقابلہ میں نکلے اور حمزه شیبہ کے اور علی ولید کے مقابل ہوئے ۔ حضرت علی اور حضرت حمزہ نے تو اپنے اپنے مقابل کا ایک ہی وار میں کام تمام کر دیا، عبیدہ خود بھی زخمی ہوئے اور اپنے مقابل کو بھی زخمی کیا۔ بالآخر عتبہ نے حضرت عبیدہ پر تلوار کا ایسا وار کیا جس سے حضرت عبیدہ کے پیر کٹ گئے۔ حضرت علی اور حمزہ اپنے اپنے مقابل سے فارغ ہو کر حضرت عبیدہ ؎ کی امداد کو پہنچے اور عتبہ کا کام تمام کیا اور عبیدہ کو اٹھا کر آپ نے عوام کی خدمت میں لے آئے ۔ عبیدہ کی الله کی پنڈلی کی ہڈی سے خون جاری تھا۔ عبیدہ نے دریافت کیا یارسول الله کیا کام کیا میں شہید ہوں۔ آپ نے فرمایا: ہاں۔
عتبہ اور شیبہ کے قتل کے بعد میدان کارزار گرم ہوگیا۔ آنحضرت  چھپر سے برآمد ہوئے اور صحابہ کی صفوف کو ہموار کیا اور پھر ابو بکر صدیق کو ساتھ لئے ہوئے عریش ( چھپر ) میں واپس تشریف لے گئے اور سعد بن معاذ تلوار لے کر چھپر کے دروازے پر کھڑے ہو گئے ۔ حضور پر نور نے جب اپنے اصحاب اور احباب کی قلت اور بے سروسامانی کو اور اعداء کی کثرت اور قوت کو دیکھا تو نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور دو رکعت نماز پڑھی اور دعا میں مشغول ہو گئے اور یہ دعا مانگتے تھے۔

“اے الله میں تیرے عہد اور وعدوں کی وفا کی درخواست کرتا ہوں۔ اے الله اگر تو چاہے تو تیری پرستش نہ ہو۔”

آنحضرت صلی الله علیہ والہ وسلم پر خشوع اور خضوع کی ایک خاص کیفیت طاری تھی۔ بار گاہِ خداوندی میں کبھی سر بسجود وتضرع و ابتہال فرماتے اور کبھی سائلانہ اور فقیرانہ ہاتھ پھیلا پھیلا کر فتح اور نصرت کی دعا مانگتے تھے۔ محویت کا یہ عالم تھا کہ دوشِ مبارک سے رداء گر گر پڑتی تھی۔
حضرت علی راوی ہیں کہ میں نے بدر کے دن کچھ قتال کیا اور آپ کی طرف آیا، دیکھا کہ آپ سر بسجود ہیں اور یا حی یا قیوم کہتے جاتے ہیں۔ میں لوٹ گیا اور قتال میں مصروف ہوگیا اور کچھ دیر بعد پھر آپ کی طرف آیا، پھر اسی حال میں پایا، تین مرتبہ اسی حال میں پایا تو چوتھی بار الله نے فتح دی۔

صحیح مسلم میں ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے مجھ سے بیان کیا کہ جب بدر کا دن ہوا اور رسول الله نے دیکھا کہ مشرکین مکہ ایک ہزار ہیں اور آپ کے اصحاب تین سو سے کچھ زیادہ ہیں تو آپ عریش  (چھپر)  میں تشریف لے گئے اور مستقل قبلہ ہو کر بارگاہ خداوندی میں دعا کے لئے ہاتھ پھیلائے۔
"اے الله تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا فرما اے الله اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر زمین میں تیری پرستش نہ ہوگی”
دیر تک ہاتھ پھیلائے ہوئے یہی دعا فرماتے رہے کہ اے الله! اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر زمین پر تیری پرستش نہ ہوگی۔ اسی حالت میں چادر مبارک دوش مبارک سے گر پڑی۔

حضرت ابو بکر صدیق نے چادر اٹھا کر دوش مبارک پر ڈال دی اور پیچھے سے آکر آپ کی کمر سے چمٹ گئے۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ ابو بکر نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا۔
"بس کافی ہے۔ تحقیق آپ نے الله کے حضور میں بہت الحاح اور آہ وزاری کی۔”

الله تعالٰی نے ایک ہزار اور پھر تین ہزار اور پھر پانچ ہزار فرشتے مسلمانوں کی امداد کے لئے اتارے۔ چونکہ اس جنگ میں کفار و مشرکین کی امداد کے لئے ابلیس لعین اپنا لشکر لے کر حاضر ہوا۔ اس لئے حق جل وعلا نے مسلمانوں کی امداد کے لئے جبرئیل و میکائیل و اسرافیل کی سرکردگی میں آسمان سے اپنے فرشتوں کا لشکر نازل فرمایا، چونکہ شیطان خود سراقہ بن مالک کی شکل میں اور اس کے لشکر کے لوگ بنی مدلج کے مردوں کی شکل میں ظاہر ہوئے، جیسا کہ

دالئل بیہقی اور دلائل ابی نعیم میں ابن عباس سے مروی ہے اسی وجہ سے فرشتے بھی مردوں ہی کی شکل میں نمودار ہوئے جیسا کہ علامہ سہیلی اور امام قرطبی نےتصریح کی ہے۔

ابو اسید ساعدی ( جو صحابہ بدریین میں سے ہیں ) فرماتے ہیں کہ بدر کے دن فرشتے زرد رنگ کے عماموں میں اترے۔ شملے مونڈھوں کے درمیان چھوڑے ہوئے تھے اور ایسا ہی ابن ابی حاتم نے زبیر بن عوام سے روایت کیا ہے اور زبیر خود بھی بدر کے دن زرد عمامہ باندھے ہوئے تھے۔

عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ میں بدر کے دن صف میں کھڑا تھا۔ اچانک نظر جو پڑی تو دیکھتا کیا ہوں کہ میرے دائیں بائیں انصار میں سے دو نوجوان ہیں۔ اس لئے مجھے کو اندیشہ ہوا کہ لوگ آ کر مجھ کو دولڑکوں کے درمیان کھڑا دیکھ کر نہ آ گھیریں۔
اسی خیال میں تھا کہ ایک نے آہستہ سے کہا: اے چچا! مجھ کو ابو جہل دکھاؤ کہ کونسا ہے۔ میں نے کہا اے میرے بھتیجے ابو جہل کو دیکھ کر کیا کرو گے۔ اس نوجوان نے کہا: میں نے الله سے یہ عہد کیا ہے کہ اگر ابو جہل کو دیکھ پاؤں تو اس کو قتل کر ڈالوں یا خود مارا جاؤں اس لئے کہ مجھ کو خبر ملی ہے کہ ابو جہل رسول الله کو تنگ کرتا ہے۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اگر اس کو دیکھ پاؤں تو میرا سایہ اس کے سایہ سے جدا نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ ہم میں سے جس کی موت پہلے مقدر ہو چکی ہے یعنی کہ پہلے نہ مرجائے۔
ان کی یہ گفتگو سن کر ان سے یہ آرزو جاتی رہی کہ کاش میں بجائے دو لڑکوں کے دو مردوں کے مابین ہوتا۔ میں نے اشارہ سے ابو جہل کا بتایا۔ سنتے ہی شکرے اور باز کی طرح ابو جہل پر دوڑ پڑے اور اس کا کام تمام کیا۔ یہ دو نوجوان عفراء کے بیٹے معاذ اور معوذ تھے۔

عبد الله بن عباس اور عبدالله بن ابی بکر بن حزم، معاذ بن عمرو بن الجموح سے راوی ہیں کہ میں ابو جہل کی تاک میں تھا۔ جب موقع پڑا تو اس زور سے تلوار کا وار کیا کہ ابو جہل کی ٹانگ کٹ گئی ۔
ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے ( جو فتح مکہ میں مشرف باسلام ہوئے ) باپ کی حمایت میں معاذ کے شانہ پر اس زور سے تلوار ماری کہ ہاتھ کٹ گیا لیکن تسمہ لگا رہا۔ ہاتھ بیکار ہو کر لٹک گیا مگر سبحان الله معاذ شام تک اسی حالت میں لڑتے رہے۔ جب ہاتھ کے لٹکنے سے تکلیف زیادہ ہونے لگی تو ہاتھ کو قدم کے نیچے دبا کر زور سے کھینچا کہ وہ تسمہ علیحدہ ہو گیا۔ عثمان غنی کے زمانہ خلافت تک زندہ رہے۔ مگر معوذ بن عفراء ابو جہل سے فارغ ہو کر لڑائی میں مشغول ہو گئے یہاں تک که جام شہادت نوش فرمایا۔ انا للہ و انا الیه راجعون .

بحمد الله فتح مبین پر لڑائی کا خاتمہ ہوا۔ قریش کے ستر آدمی قتل اور ستر گرفتار اور اسیر ہوئے۔ مقتولین کی لاشوں کے متعلق رسول الله نے بدر کے کنوئیں میں ڈالنے کا حکم دیا، مگر امیہ بن خلف کہ اس کی لاش اس قدر پھول گئی تھی کہ جب زرہ نکالنے کا ارادہ کیا تو اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ اس لئے و ہیں مٹی میں دبا دی گئی۔

جب عتبہ بن ربیعہ کی لاش کنویں میں ڈالی جانے لگی تو رسول الله نے دیکھا کہ عتبہ کے بیٹے ابو حذیفہ کے چہرے پر حزن اور ملال کے آثار ہیں ۔ آپ نے فرمایا: اے ابو حذیفہ کیا باپ کی اس حالت کو دیکھ کر تیرے دل میں کچھ خیال گزرا ہے۔ ابوحذیفہ نے عرض کیا یارسول الله خدا کی قسم کوئی خیال نہیں، صرف اتنی بات ہے کہ میرا باپ صاحب رائے، حلیم، بردبار اور صاحب فضل تھا۔ اس لئے امید تھی کہ یہ فہم وفراست اسلام کی طرف رہنمائی کرے گی لیکن جب اس کو کفر پر مرتے دیکھا تو رنج ہوا۔ رسول الله نے ابو حذیفہ کے لئے دعائے خیر فرمائی۔ بعد ازاں رسول الله نے اس فتح مبین کی بشارت اور خوشخبری سنانے کے لئے مدینہ منورہ قاصد روانہ فرمائے ۔ اہلِ عالیہ کی طرف عبد الله بن رواحہ کو اور اہل سافلہ کی طرف زید بن حارثہ کو روانہ فرمایا۔

زید بن حارثہ اور عبدالله بن رواحہ کو مدینہ منورہ روانہ فرمانے کے بعد آپ روانہ ہوئے اور اسیران بدر کا قافلہ آپ کے ہمراہ تھا۔ مال غنیمت عبدالله بن کعب انصاری کے سپرد فرمایا۔

جب آپ مقام روحاء میں پہنچے تو آپ کو کچھ مسلمان ملے جنہوں نے آپ کو اور آپ کے اصحاب کو اس فتح مبین کی مبارک باد دی۔ اس پر سلمہ بن سلامہ نے کہا: کس چیز کی مبارک باد دیتے ہو۔ خدا کی قسم بڑھیوں سے پالا پڑا۔ رسی میں بندھے ہوئے اونٹوں کی طرح ان کو ذبح کر کے ڈال دیا۔ (یعنی ہم نے کوئی بڑا کام ہی نہیں کیا جس پر ہم مبارک باد کے مستحق ہوں) رسول الله یہ سن کر مسکرائے اور یہ فرمایا یہی تو مکہ کے سادات اور اشراف تھے۔

فتح کے بعد آنحضرت نے بدر میں تین روز قیام فرمایا۔ تین روز قیام کے بعد مدینہ منورہ کی طرف متوجہ ہوئے اور مال غنیمت عبد الله بن کعب کے سپرد فرمایا اور مقام صفراء میں پہنچ کر مال غنیمت کو تقسیم فرمایا۔ ہنوز مال غنیمت کی تقسیم کی نوبت نہیں آئی تھی کہ اصحاب بدر مال غنیمت کی تقسیم میں مختلف الرائے ہو گئے۔ جوان یہ کہتے تھے کہ مال غنیمت ہمارا حق ہے کہ ہم نے کافروں کو قتل کیا۔ بوڑھے چونکہ جھنڈوں کے نیچے رہے اور قتل وقتال میں زیادہ حصہ نہیں لیا وہ یہ کہتے تھے کہ ہم کو بھی مال غنیمت میں شریک کیا جائے۔ اس لئے کہ جو کچھ فتح ہوا وہ ہماری پشت پناہی سے فتح ہوا اگر خدانخواستہ تم کو شکست ہوتی تو ہماری ہی پناہ لیتے اور ایک جماعت کہ جو نبی کریم کی حفاظت کر رہی تھی وہ اپنے کو اس مال کا مستحق سمجھتی تھی۔ اس پر قرآن مجید کی آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ آپ سے مال غنیمت کا حکم پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ مال غنیمت الله کا ہے اور اس کے رسول کا ہے یعنی مال غنیمت کے مالک حق تعالیٰ اور رسول الله کے نائب ہیں۔ جس طرح مناسب سمجھیں تقسیم کر دیں۔ مقام صفراء میں پہنچ کر آپ نے یہ تمام مال مسلمانوں میں برابر تقسیم کر دیا۔

ملتے جُلتے مضمون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button